This blog article is written by Qamar Abbas, Urdu Teacher at Zubaan. He holds an M.A. in Urdu Literature and is passionate about teaching Urdu to foreigners and Pakistanis alike.
بحیثیت اردو استاد میں کئی برسوں سے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں اردو پڑھا رہا ہوں ۔مقامی لوگوں کو اردو سکھانے کے ساتھ ساتھ میں نے بہت سارے غیر ملکی افراد کو بھی اردو پڑھائی ہے ۔ اگر چہ میری مادری زبان اردو نہیں لیکن مجھے اردو سے پیار ہے ، میں سمجھتا ہوں اردو ایک نہایت خوبصورت اور میٹھی زبان ہے ۔
پاکستان میں اس وقت بہت سارے غیر ملکی افراد مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں اور وہ اردو سیکھنا چاہتے ہیں تاہم حکومتی سطح پر اس بارے میں کوئی خاص قابل ستائش کام نہیں ہو ررہا ۔ میں سمجھتا ہوں اگر اردو زبان کی تدریس کا مناسب اہتمام کیا جائے تو اردو سیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ زبانیہں تہذیبیں بناتی ہیں اور انہیں آنے والے زمانوں سے بامعنی مکالمے کے لئے تیار کرتی ہیں۔ اگر ہم واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو جان لینا چاہئے کہ یہ ہماری تہذیب کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہمیں اپنی کم علمی کا اعتراف ہے لیکن گمان یہی ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کا انتظار کئے بغیر انفرادی طور پر فوراً کرنے والا کام صرف اور صرف یہ ممکن بنا کر دکھانا ہے کہ ہم ہر وہ بات اردو میں کہہ سکتے ہیں، ہر وہ مسئلہ اردو میں تحریر کر سکتے ہیں، ہر وہ ذہنی خاکہ اردو میں کھینچ سکتے ہیں جو تاحال انگریزی کے بغیر ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔حکومت کیا کوئی بھی اردو کو سماج میں نافذ نہیں کر سکتا اگر سماج میں رہنے والے نا چاہیں کیونکہ زبان کو انسان، ثقافت، معاشرے کی تخلیق اور نشو ونما کی اساس سمجھا جاتا ہے۔یہ بات بھی واضح ہے کہ زبان ان سب سے مختلف نہیں ہے بلکہ ان سب میں پیوست ہے۔ان سب کے تناظر اور سیاق اگرچہ مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں۔زبان کے بغیر ہم نہ انسانوں پر بحث کرسکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے اور ثقافت پر۔جب بھی زبان کی بات ہوگی، ان کے بارے میں بھی کی جائے گی۔دوسرے لفظوں میں یہ معاشرے اور ثقافت کو تشکیل دیتی ہے اور خود بھی اس سے تشکیل پاتی ہے۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زبان نہ صرف انسانی افکار کی نشوونما کی بنیادہے بلکہ انسانی افکار کو وجود میں بھی لاتی ہے اوراس کے بغیر انسانی فکر ممکن نہیں ہے۔تعلیم کی ہرسطح پر زبان مرکزی اور خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔غورکرنا، اپنے خیالات کو مہمیزکرنا، ان کو مختلف طریقوں سے وسعت دینا، اور ان خیالات کا اظہار کرنا اس سب کے لیے زبان ضروری ہے۔اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بچے اپنی زبان یعنی وہ زبان جس کا اکتساب انھوں نے اپنے گھراور سماجی ماحول میں کیا ہے، اس میں وہ ہر طرح کی بات چیت اور غوروفکر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ بھی مانا جاتا ہے کہ وہ اس زبان میں تصورات کی پختہ اور بہتر تفہیم کے بھی اہل ہیں۔تدریسی عمل، جو ان کی اپنی زبان اور ثقافت کے تناظر میں انجام دیا گیا ہے اس کے لیے ضروری اعتمادکوفروغ دیتا ہے۔
گویا جب آ پ کوئی نئی زبان سیکھتے ہیں تو آپ صرف ایک زبان سے واقف نہیں ہوتے بلکہ ایک پوری تہذیب سے آشنا ہو رہے یوتے ہیں
اردو بولنے والے معاشرے کا ہر فرد اور فریق اپنے ذوق، احساس فرض، ضرورت اور وسائل کے مطابق اس پروگرام کوفی الواقع عملی بنانے کے عمل میں حصہ لے سکتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ حصہ داری صرف انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور بیک وقت اجتماعی بھی۔ یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں وہ کام ہیں جنہیں ہمیں خود کرنا ہے اور دوسرے حصے میں وہ کام ہیں جنہیں کرانے کے لئے حکومت کو آمادہ کرنا ہے۔ اس پروگرام کے پس پشت نقطئہ نظر اوراس کے مضمرات کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱– بات ہے صرف لکھنے پڑھنے کی:
علم لسانیات سے یہ نکات اب خاصے جانے پہچانے ہوگئے ہیں کہ زبان کی دوشکلیں ہوتی ہیں: بول چال کی زبان اور تحریری زبان۔ اصل زبان بول چال کی زبان ہے اور تحریری زبان اساساً بول چال کی زبان ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔ کسی زبان کو پوری طرح جاننے کا مطلب ہے کہ آپ اس کی ان دونوں شکلوں کو جانتے اور انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لئے کسی زبان کو پوری طرح جاننے کے لئے اس کی تمام مہارتیں حاصل کرنا ضروری ہیں۔ زبان کی بنیادی مہارتیں چار ہیں:
(۱) سن کر سمجھنا (۲) بولنا (۳) پڑھنا (۴) لکھنا
جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے پہلی دو مہارتیں یعنی سن کر سمجھنا اور بولنا سیکھنا سب کیلئے یکساں طور پر آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں مہارتیں بچوں کو کم و بیش چار سال کی عمر تک اپنے ماحول میں خودبخود آجاتی ہیں۔ البتہ باقی دو مہارتوں یعنی پڑھنے اور لکھنے کو کوشش کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ اردو زبان کے تعلق سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اردو چونکہ ہماری مادری زبان ہے اس لئے ہم سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ اسے جانتے ہیں اور بلاتکلف بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی اردو جاننے والوں میں ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بہت بڑی تعداد اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ اس میں غیرتعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ دونوں شامل ہیں اور اس وجہ سے ہم لوگ اردو کو اپنے بہت سے روز مرہ کے کاموں میں استعمال نہیں کرسکتے۔
ہمیں اس بات کو ایک بار پھر سمجھنا چاہئے کہ ہم سب لوگ اردو جانتے ہیں اور فطری طور پر اسے بولنے کی حد تک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن روزمرہ کے بہت سے کاموں میں استعمال کے لئے اس کا لکھنا پڑھنا جاننا بھی ضروری ہے جو نہایت آسان ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ اردو نہ جاننے والوں کے لئے اردو زبان سیکھنا مشکل ہوسکتا ہے، لیکن جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے ان کے لئے اس کا لکھنا پڑھنا سیکھنا نہایت آسان ہے۔ یاد رکھئے ہمیں اردو نہیں سیکھنا ہے۔ اردو تو ہم جانتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اس کا لکھنا پڑھنا سیکھنا ہے۔ اردو کی الف بے تے لکھنے پڑھنے اور حروف کو ملاکر لکھنا پڑھنا سیکھنے سے یہ خوبی بہت تھوڑے وقت میں حاصل ہوجاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ہم ایک ماہ تک ایک گھنٹہ روزانہ اردو کے حروف اور اعراب و علامات اور ان کا ملانا لکھنا پڑھنا سیکھیں تو کافی ہوگا اور اگر تین ماہ تک اس عمل کو جاری رکھا جائے تو اچھی خاصی مہارت حاصل ہوسکتی ہے۔
۲– اردو کا رسم الخط:
اردو کا رسم الخط اس کا اپنا منفرد رسم الخط ہے اور دنیا کے حسین ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک طویل تاریخی عمل سے وجود میں آیا ہے۔ ہم اسے صدیوں سے اسی شکل میں برتتے اور قبول کرتے آئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہمارا رسم الخط ہمارے تلفظ، ہماری شائستگی اور ہمارے لسانی، ادبی، علمی اور ثقافتی سرمائے کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی نہج سے بعض دوسری زبانوں کا ذکر تاریخی دلچسپی کا موضوع تو ہوسکتا ہے لیکن باربار ان کا ذکر عملی اعتبار سے نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ غلط فہمیوں کا سبب بنتا رہا ہے۔ جس طرح اردو کا ماخذ اس کے اپنے علاقے کے عوام ہیں اسی طرح اردو کا رسم الخط بھی اپنے علاقے کی تاریخ کے بطن سے فطری انداز میں صورت پذیر ہوا ہے اور رفع و ارتقا کے عمل سے گزرا ہے۔ اسے کسی مذہبی تعصب، سیاسی یا قانونی جبر، کسی سیاسی بحران کے دباؤ یا مصنوعی لغت سازی کے توسط سے پہلے سے موجود اور مستعمل ایک معیاری عوامی زبان کے متوازی زبان بنانے کی تحریک کے پس منظر میں نافذ نہیں کیاگیا تھا۔ لہٰذا اس صورت میں جب ہم اپنی مادری زبان اوراس کے رسم الخط سے دست بردار ہوتے ہیں تو اپنی لسانی اصل سے انحراف کرتے ہیں اور اپنے لسانی تشخص کو مسخ کرتے ہیں اور اپنے وسیع الاساس ہندوستانی قومی تشخص اوراس کی نمائندہ زبان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اردو کے حروف سارے کے سارے اس کے اپنے ہیں، ناگزیر ہیں اور ایک طویل تاریخی عمل کے مرہونِ منت ہیں۔ ہمارے حساب سے ان کی تعداد ۵۲ ہے اور ان کے ساتھ ۱۴ اعراب و علامات ہیں۔ دونوں کی مجموعی تعداد ۶۶ ہے۔ یہ سب کے سب ہمارے رسم الخط کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا اردو کو صحت کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے لئے ان سب کا سیکھنا بنیادی ضرورت ہے۔ اردو زبان کی ابتدائی درسی کتابوں میں ان سب کے ایک ساتھ سکھانے کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ اردو کی ابتدائی درسی کتابوں کے جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس معاملے میں ہم سے بڑی غفلتیں ہوئی ہیں جن کے نتائج نہایت خراب نکلے ہیں۔ ابتدائی درسی کتابوں میں حروف اور اعراب وعلامات کی معیار سازی اور یکسانیت ایک اہم ضرورت ہے اور اردو رسم الخط کی صحیح تدریس اور خود اس کے وجود کے تحفظ کی شرطِ اوّل ہے۔ اردو میں مستعمل اصوات کی تعداد زیادہ سے ۷۳ ہوسکتی ہے اور اگر اع، ت ط، س ث ص، ہ ح، زذض ظ میں سے ہر گروپ کو ایک ایک آواز تصور کریں جیسا کے عمومی اردو بول چال میں دراصل ہے تو پھر اردو میں کام آنے والی اصوات کی تعداد ۶۵ ہے۔ بہرحال ۷۳ یا ۶۵ مستعمل اصوات کا انحصار بولنے والوں کے اسلوب پر منحصر ہے۔ اردو میں کام آنے والی اصوات جتنی بھی ہیں اردو کے حروف اور اعراب و علامات ان تمام اصوات کو بخوبی بنا لیتے ہیں۔ اردو اس اعتبار سے ایک غیر معمولی ہندوستانی زبان ہے کہ اس میں مستعمل اصوات کی تعداد فرداً فرداً سنسکرت، عربی، فارسی، انگریزی اور اپنے علاوہ دوسری تمام ہندوستانی زبانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اصوات کی اسی افراط کی وجہ سے ہی اردو والے دنیا کی کسی بھی زبان کو نسبتاً جلد سیکھ لیتے ہیں اوراس زبان کا ان کا تلفظ اہل زبان جیسا ہوجاتاہے۔
اردو کے حروف:
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ذ ڈ ر ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن ں و ہ ی ے
بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ دھ ڈھ رھ ڑھ کھ گھ لھ مھ نھ
(بھالا، پھل، تھالی، کٹھل، جھاڑو، چھاتا، دھنک، ڈھال، تیرھواں، کڑھائی، کھجور، گھر، کولھو، کمھار، منھ)
اردو کے اعراب و علامات:
۳– زبان، کلچر اور تشخص کا تحفظ:
اس دور میں اردو بولنے والے معاشرے کے سامنے ایک بہت ہی اہم مسئلہ اپنی زبان، ثقافت اور تشخص کے تحفظ کا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ ہم جہاں اور جب مناسب سمجھیں تھوڑی سی فعالیت کرکے اپنے بچوں کی پرائمری تعلیم کے پانچ سال میں ان مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ پرائمری تعلیم کے بنیادی مقاصد میں زبان اور کلچر کا تحفظ اور نسل درنسل ان کی منتقلی، زبان کا لکھنا پڑھنا اوراس کی نظم و نثر کا تعارف، حساب، ماحول کا ادراک اور مل جل کر رہنے کی تربیت شامل ہیں۔ پانچ سال بہت ہوتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے پرائمری تعلیم کے ساتھ سنجیدگی برتیں۔ اُسے منظم، مربوط اور موثر بنائیں اور اس کی جدید کاری پر توجہ دیں۔ اعلیٰ درجے کا نصاب بنائیں، ہر سطح کی معیاری درسی کتابوں کی تیاری پر توجہ دیں ،ان کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور ٹیچروں کو ٹریننگ کی سہولیات فراہم کریں۔ پرائمری تعلیم پر توجہ ناگزیر ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کی بجائے اس شعبہ میں خود فعالیت کریں۔ اور حکومت کو اس ضمن میں اپنےآئینی فرض پورے کرنےکے لئے بھی آمادہ کریں۔ واضح رہے کہ زبان اور کلچر کے تحفظ کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے یہ فریضہ کوئی دوسرا ادا نہیں کرے گا ۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ فطری اور موٴثر پرائمری تعلیم و تدریس اور تربیت صرف مادری زبان کے توسط سے ہی ممکن ہے۔
۴– اردو زبان و ثقافت کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھنے کا ایک طریقہ شاید یہ بھی ہوسکتا ہے:
ہم جس اردو کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اسے اس عام بول چال کی زبان کے تعلق سے سمجھنا چاہئے جو گنگاجمنا کے دوآبے کے کلچر کا جزو ہے اور جو ایک طویل تاریخی عمل سے گذر کر شمالی اور وسطی ہندستان کے بڑے علاقوں کی عام بول چال کی زبان بن چکی ہے۔ ہم جس زبان کو ایک عرصے سے ہندستانی کہتے آئے ہیں وہ ہمارے ملک کے متذکرہ بالا تمام علاقوں کی بول چال کی زبان ہے اور ان علاقوں کے سب لوگ بلا امتیاز مذہب،نسل، رنگ اور ذات پات ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ مزید برآں برصغیر میں اس بول چال کی زبان کے بہت سے جزیرے بھی ہیں۔ عملی طور پر اب یہ بول چال کی زبان الگ الگ زبانیں بولنے والے برصغیر کے ایک سو پچاس کروڑ عوام کے درمیان رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ اردو دراصل اسی ہندستانی بول چال کی معیاری شکل ہے۔ اسی وجہ سے فلمی صنعت کے پہلے دن سے آج تک ہماری فلموں کی مقبول ترین زبان اردو ہی رہی ہے اور اردو فلمیں تمام برصغیر میں اور برصغیر کے باہر بھی جنوبی ایشیا، شرق میانہ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ جو اردو ہمارا موضوع ہے ،وہ ہمیشہ عام بول چال کے قریب رہتی ہے اور ہمیشہ کی طرح اب بھی اس کے عصری اور فطری رجحانات کو فطری انداز میں بلا مزاحمت جذب کرتی رہتی ہے۔ اس بناپر کئی سو سال سے ارد وہماری مشترکہ تہذیب کی خوب صورت مظہر اور معتبر ترجمان ہے۔ یہ ملی جلی تہذیب برصغیر کی مثالی تہذیب ہے۔ اسے ہم گنگاجمنی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ مہذب گفتگو، آداب کا معیار، رواداری، علم و انسان دوستی، مل جل کر رہنے کا شعور، وطن سے محبت، شرافت اور نفاست، پیار اور بھائی چارہ، شائستگی اور شگفتگی، ایک دوسرے کا لحاظ و احترام اور خوب سے خوب تر کی تلاش اس کی قدریں ہیں۔